رائے منظور ناصر نہایت قابل اور فرض شناس سول سرونٹ ہیں ۔ان کے ہونہار فرزند رائے حارث منظور نے 9سال کی عمر میں اولیول کا امتحان پاس کر کے دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا تو مجھے بے حد خوشی ہوئی۔او لیول کا امتحان برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کے زیر اہتمام ہر سال ہوتا ہے جس میں دنیا بھر کے 90ممالک سے کم از کم 20لاکھ طلبہ حصہ لیتے ہیں۔ اس امتحان کے لئے بالعموم 3سال کی پری اسکولنگ اور 11سال کی باقاعدہ کلاسز ضروری سمجھی جاتی ہیں یعنی لگے بندھے طریقے سے پڑھنے والے طلبا و طالبات یہ امتحان 17یا 18سال کی عمر میں پاس کرتے ہیں مگر اس قابل رشک پاکستانی بچے نے 9سال کی عمر میں یہ سنگ میل عبور کر کے عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے۔
اس سے پہلے ایک پاکستانی بچی ستارہ بروج اکبر نے 11سال کی عمر میں یہ امتحان پاس کر کے ریکارڈ بنایا تھا جسے اب ایک پاکستانی بچے نے ہی توڑا ہے۔اس بچے نے عہد طفولیت میں نہ صرف ناظرہ قرآن مجید پڑھ رکھاہے بلکہ آخری پارہ حفظ بھی کر لیا ہے۔او لیول کے امتحان میں بھی اس نے طبعیات،کیمیا،حیاتیات اور ریاضی جیسے مشکل مضامین کا انتخاب کیا۔ میری خواہش تھی کہ اس بچے سے مل کر یہ جاننے کی کوشش کروں کہ اس کی کامیابی کا راز کیا ہے؟کیا ہمارے ملک کے دیگر بچے رائے حارث منظور کو رول ماڈل بنا کر اپنے والدین اور ملک و قوم کا نام روشن نہیں کر سکتے؟اس جستجو کے دوران یہ انکشاف ہوا تو میں مزید حیرت زدہ رہ گیا کہ اس بچے نے کسی تعلیمی ادارے میں داخلہ نہیں لیا بلکہ والدین نے گھر پر ہی اس کی تعلیم کا اہتمام کیا ہے،اس کی ماں اور باپ ہی اس کے معلم و مدرس ہیں۔
میرا خیال تھا کہ یہ بچہ جسمانی طور پر بہت کمزور ہو گا اور کتابی کیڑوں کی طرح بچپن کے لوازمات سے محروم ہو گا۔مگر میرے سب اندازے غلط ثابت ہوئے۔حارث منظور کا ایک جڑواں بھائی ہے شعیب منظور جو تیسری کلاس کا طالب علم ہے ۔یہ بچہ جس نے ریکارڈ قائم کیا ہے اس کا وزن 46کلو ہے جبکہ اس کے ہم عمربھائی کا وزن 23کلو گرام ہے۔حارث عام بچوں کی طرح نٹ کھٹ اور شرارتی ہے،کھانے پینے کا بے حد شوقین ہے۔ پیزا ،برگر،بریانی اور فرائیز بڑے شوق سے کھاتا ہے بلکہ یہ کہیں تو بے جا نہ ہو گا کہ کھاناپینا اس کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔یہ بچہ کتابی کیڑوں کے برعکس کرکٹ کھیلتا ہے،پیانو بجاتا ہے،بہترین شوٹر ہے،ٹام اینڈ جیری بہت رغبت سے دیکھتا ہے،مزاحیہ ڈرامہ ’’بلبلے‘‘میں مومو کا کردار ادا کرنے والی حنا دلپذیر اور فیصل قریشی اس کے پسندیدہ فنکار ہیں۔کھلاڑیوں میں شاہد آفریدی اس کے فیورٹ ہیں اور اینکرز میں اسے سہیل وڑائچ بے حد پسند ہیں جن کو وہ بہت اچھے انداز میں کاپی بھی کر کے دکھاتا ہے۔اس قدر بھرپور اور پرلطف زندگی گزارنے کے باوجود یہ بچہ ورلڈ ریکارڈ بنانے میں کس طرح کامیاب ہو گیا؟یہ سوال جاننے کے لئے میں نے اس کی زندگی کے ہر پہلو کو پرکھا اور آخر کار یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کامیاب ہوا کہ اگر پانچ اصول اپنا لئے جائیں تو ہر بچہ حارث منظور بن سکتا ہے۔طالب علم بچے ہوں یا بڑی عمر کے ،عموماً پانچ کمزوریوں کی وجہ سے ناکام ہوتے ہیں:
1۔ان کے پاس کوئی خواب نہیں ہوتا۔زندگی خواب سے شروع ہوتی ہے۔آپ دنیا کے کسی بھی کامیاب انسان کی کتاب زیست اٹھا کر دیکھ لیں ،ایک ہی لفظ جلی حروف میں لکھا نظر آئے گا،خواب۔کیونکہ کسی بھی بڑے کام کا آغاز ہمیشہ خواب سے ہوتا ہے۔جو بچے ناکام ہوتے ہیں ان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ان کی منزل کیا ہے،انہیں کرنا کیا ہے۔ یورپ کے شہرہ آفاق ناول ’’ایلس ان ونڈرلینڈ ‘‘ کے ایک منظر میں ایلس چلتے چلتے ایک دوراہے پر جاتی ہے اور راستے کا انتخاب نہیں کر پاتی تو ایک درخت پر بیٹھی بلی سے پوچھتی ہے مجھے کس راستے پر جانا چاہئے؟بلی پوچھتی ہے ،تمہیں جانا کہاں ہے؟ایلس کہتی ہے مجھے معلوم نہیں۔ بلی ہنس کر جواب دیتی ہے تو پھر کسی بھی راستے پر چلی جائو ،کیا فرق پڑتا ہے۔خواب کی مثال بھوک جیسی ہے،اگر بھوک نہ ہو تو کھانا اچھا نہیں لگتا۔
2۔خوابوں کی بہتات۔ ناکام طلبہ کی دوسری قسم خواب دیکھتی ہے اور بس خوابوں خیالوں کی دنیا میں ہی مگن رہتی ہے عملاً کچھ نہیں کر پاتی۔خیالی پلائو پکانا ان کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے۔گزشتہ برس ایک برطانوی ادارے کی ریسرچ سامنے آئی تھی کہ ہم اپنی زندگی کا ایک تہائی وقت لایعنی خیالات اور بے مقصد خوابوں کی نظر کر دیتے ہیں ۔جملہ تو بہت گھسا پٹا ہے لیکن ہے بہت کارآمد کہ خواب وہ نہیں جو آپ نیند میں دیکھتے ہیں ،خواب تو وہ ہے جو آپ کی نیند اُڑا کر رکھ دے۔
3۔خود اعتمادی کا فقدان یا بہتات۔کچھ بچوں میں خود اعتمادی نہیں ہوتی۔وہ سمجھتے ہیں کہ حارث منظور جیسے بچوں کو سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں ۔وہ کامیاب افراد سے اپنا موازنہ کر کے بیشمار ایسی وجوہات نکال لیتے ہیں جنہیں اپنے احساس کمتری کا جواز بنایا جا سکے۔ان کی ہر بات کی تان ہی یہیں ٹوٹتی ہے کہ میں کہاں اور وہ کہاں،میں کیسے کر سکتا ہوں۔شکست خوردہ ذہنیت کے ساتھ آج تک کوئی کامیاب نہیں ہو سکا لہٰذا یہ اسٹوڈنٹ بھی ناکام ہو جاتے ہیں۔جبکہ وہ طالب علم جو اوور کانفیڈینٹ ہوتے ہیں ،ان کی مثال بھی خوابوں اور خیالوں کی دنیا میں رہنے والوں کی سی ہے جو سمجھتے ہیں کہ دنیا کا ہر کام بنا کسی جدوجہد کے چٹکی بجاتے ہوئے کیا جا سکتا ہے۔ایسی صورت میں بھی ناکامی مقدر بن جاتی ہے۔
4۔غلطیوں سے اجتناب ۔اس روش کا آغاز بچپن سے ہوتا ہے۔جب بچہ ماں کی گود سے نکل کر رینگتا ہے اور پھر چلنا شروع کرتا ہے تو بعض والدین اسے لپک کر تھام لیتے ہیں کہ ہمارا لخت جگر کہیں گر نہ جائے،اسے چوٹ نہ لگ جائے۔آگے چل کر یہ رویہ پختہ ہوتا جاتا ہے اور بچہ غلطیوں سے گریز کی روش پر کاربند ہو جاتا ہے حالانکہ جو شخص غلطیاں کرنا چھوڑ دیتا ہے اس کے ارتقاء اور سیکھنے کا عمل بھی رُک جاتا ہے۔ محض نکھٹو اور کام چور قسم کے لوگ ہی یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ انہوں نے کبھی کوئی غلطی نہیں کی یا انہیں کبھی کسی ناکامی کا منہ نہیں دیکھنا پڑا۔وگرنہ تو آپ نے بائیسکل چلا کر دیکھی ہو گی،جو گرنے سے خوف کھاتا ہے وہ کبھی نہیں سیکھ پاتا اور پھر کون ناکام نہیں ہوا،Simon Cowellجیسا کامیاب شخص33سال کی عمر میں بنکرپٹ ہو گیا،سٹیو جابز کو 30سال کی عمر میں ایپل کمپیوٹرز نے نوکری سے نکال دیا، ایک معروف مشروب سازکمپنی کا آغاز ہوا تو پہلے سال صرف 420بوتلیں فروخت ہو پائیں۔ بہت طویل فہرست ہے ان افراد کی جنہوں نے ناکامی کو کامیابی کا زینہ بنایا۔
5۔ناکامی کا خوف۔ناکامی کا سب سے بڑا سبب یہ خوف ہوتا ہے کہ اگر میں کامیاب نہ ہوا تو کیا ہو گا۔میں نے حارث کے خوش قسمت والد رائے منظور ناصر سے پوچھاکہ اس بچے کی کامیابی کی اگر کوئی ایک وجہ پوچھی جائے تو آپ کیا جواب دیں گے؟انہوں نے کہا کہ ہم نے کبھی اس پر زبردستی نہیں کی میرا خیال ہے اگر سب والدین ایسا طرز عمل اختیار کر لیں تو ہر بچہ رائے حارث منظور بن سکتا ہے۔
بشکریہ روزنامہ "جنگ"