Overblog
Edit post Follow this blog Administration + Create my blog

روہنگیا مسلمان، کوئی تو سہارا بنے
پاکستانیوں اور امت مسلمہ کی دیگر اقوام کے لئے برما کے روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار کی خبریں کوئی نئی بات نہیں۔ وہ تو کئی صدیوں سے برما کی اکثریت کے ظلم و استبداد کا شکار ہیں۔ انیس سو ستر اور اسی کی دہائی میں لاہور، فیصل آباد اور کراچی جسیے بڑے شہروں میں دبلے پتلے اور سانولے مرد ، عورتیں اور بچے بڑی کثرت سے نظر آتے تھے اور برما میں ہونے والے مظالم کی داستانیں سناتے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب فوجی حکمران جنرل ضیا الحق نے برما کے مسلمانوں کو پاکستان میں آباد کرنے کے لئے ایک آزاد پالیسی اپنائی ہوئی تھی۔
اس کے بعد انیس سو نوے کی دہائی میں بھی اراکانی مسلمانوں کی کچھ تعداد پاکستان میں آئی ۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی کراچی میں برما سے آئے لوگوں کی اراکان آباد کے نام سے بسائی ہوئی بستی موجود ہے۔ کراچی سمیت ملک کے مختلف شہروں میں آباد ان روہنگیا افراد کی تعداد دو لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے۔ بنگلا دیش کے راستے آنے والے روہنگیا پاکستان   میں دو سے تین نسلوں سے رہ رہے ہیں۔ مگر ابھی تک یہ پاکستانی قوم کا حصہ نہیں بن سکے۔ اعداد و شمار کے مطابق میانمر (سابقہ برما) کی ریاست رکھین یا اراکان میں تو صرف تیرہ لاکھ روہنگیا رہتے ہیں۔ مگر دس لاکھ کے قریب پاکستان کے علاوہ بنگلادیش، تھائی لینڈ , ملائشیا، بھارت اور سعودی عرب میں بھی آباد ہیں۔
سب سے زیادہ تعداد بنگلادیش ہے جہاں مشترکہ رنگ روپ اور زبان کی وجہ سے بنگالی آبادی میں رچ بس سکتے ہیں۔ مگر وہاں پر بھی ان کو کیمپوں میں ہی رہنا پڑتاہے۔ برما کے علاقے راکھین میں رہنے والے لوگ گیارھویں صدی میں مسلمان ہوئے۔ کئی صدیوں تک یہ لوگ آزادی کی فضا میں سانس لیتے رہے۔ مگر ان کے مصائب کا   آغاز سولہویں صدی میں ہوا جب 1559ء میں بدھ مت ماننے والے حکمران نے مسلمانوں پر پابندیاں عائد کردیں۔ مصائب کا یہ سلسلہ وقفے وقفے سے 1948 میں برما کی آزادی تک جاری رہا۔ برطانیہ سے آزادی کے بعد مسلمانوں کا پہلا قتلِ عام 1962ء میں ہوا جب فوجی حکومت نے اقتدارسنبھالنے کے بعد مسلمانوں کو باغی قرار دے کر اُن کے خلاف آپریشن شروع کردیا۔ یہ سلسلہ اگلے 20 سال جاری رہا۔ اور 1982ء تک 1 لاکھ مسلمان شہید ہوئے اور اندازا لاکھوں  مسلمان اس دور میں بنگلا دیش، بھارت اور پاکستان کی طرف ہجرت کر گئ.
عالمی سطح پر بھی روہنگیا مسلمانوں کے حق میں صرف بیانات ہی آرہے ہیں۔ صرف ترک حکومت نے بنگلادیش حکومت کو روہنگیا کی آبادکاری کے لئے مالی امداد کی پیش کش کی ہے۔ مگر بنگلادیش کی موجودہ قیادت نے کوئی مثبت جواب نہیں دیا ہے۔ یہ بڑی تشویش ناک صورت حال ہے کیونکہ تشدد کا جواب تو صرف تشدد ہی ہوتاہے۔ امریکہ سمیت تمام مغربی اور ترقی یافتہ ممالک اگر دنیا میں انتہاپسندی اور تشدد کا خاتمہ چاہتے ہیں تو روہنگیا ، کشمیریوں اور فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کو رکوانا ہو گا۔ ورنہ دہشت گردی کے خلاف جاری بین الاقوامی جنگ جیتنا مشکل ہو گا۔
محمد لقمان
روہنگیا مسلمان، کوئی تو سہارا بنے
روہنگیا مسلمان، کوئی تو سہارا بنے
روہنگیا مسلمان، کوئی تو سہارا بنے
روہنگیا مسلمان، کوئی تو سہارا بنے
روہنگیا مسلمان، کوئی تو سہارا بنے
روہنگیا مسلمان، کوئی تو سہارا بنے
روہنگیا مسلمان، کوئی تو سہارا بنے
Tag(s) : #Rohingya, #Rohingya Muslims, #Myanmar, #Burma
Share this post
Repost0
To be informed of the latest articles, subscribe: