Overblog
Edit post Follow this blog Administration + Create my blog

مودی حکومت کے دو سال
اگر مجھے وزیراعظم نریندر مودی کی دو سالہ حکومتی کارکردگی کو نمبر دینے کا کہا جائے تو میں انھیں 10میں سے 4 نمبر دوں گا۔ انھیں 3 نمبر دے کر فیل نہیں کروں گا کیونکہ انھوں نے سرکاری طور پر ہندوتوا پروگرام پر عملدرآمد نہیں کرایا، البتہ آر ایس ایس اور بجرنگ دل جیسی انتہا پسند تنظیموں کو کھلی اجازت دے رکھی کہ وہ پنی پالیسی پر عمل کرتی رہیں۔
مجھے علم ہے کہ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوت کو سرکاری ریڈیو آکاش وانی پر اپنے انتہا پسندانہ نظریات کے پرچار کی اجازت دیدی گئی، اس کے علاوہ دیگر سرکاری اداروں کو، جن میں نہرو لائبریری بھی شامل ہے، کہا گیا ہے کہ ناگپور میں آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹر یا نئی دہلی کے جھنڈے والن سے سے وصول ہونے والی ہدایات پر حرف بحرف عمل کیا جائے۔
واضح رہے متذکرہ ہدایات پر عمل نہ ہونے پر نہرو یونیورسٹی کے ساتھ ملحقہ متعدد تعلیمی اداروں کے سربراہوں کو برطرف کر دیا گیا ہے۔ یہ عمل ابھی تک تکمیل کو  نہیں پہنچا  حتیٰ کہ جن ریاستوں میں کانگریس کی حکومت ہے وہاں کے وفاقی اداروں کو بھی بڑے منظم انداز میں زعفرانی رنگ میں رنگا جا رہا ہے۔  سرکاری حکم یہی ہے کہ بالآخر سب کو ہندوتوا کا نظریہ اختیار کرنا پڑے گا۔
مثال کے طور پر دہلی سے صرف 50 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع دادری میں ایک مسلمان کو محض اس شبے میں ہلاک کر دیا گیا کہ اس کی فیملی نے بیف کھایا ہو گا۔ یہ انتہا پسند لوگ صرف ایک شخص کی ہلاکت پر قانع نہیں تھے بلکہ وہ تو اس کی پوری فیملی کو ہلاک کر دینا چاہتے تھے۔ اس بے چاری فیملی کو احتجاج میں آواز بھی بلند کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔
لیکن دنیا میں ہمارے معاشرے کے بارے میں کیا تاثر پہنچا ہو گا جب کہ وہ قومیں اب انسان کو چاند پر پہنچانے کے قابل ہو چکی ہیں دوسری طرف ہمارا معاشرہ بیف کھانے کو گناہ کبیرہ قرار دے رہا ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ خود کو سیکولر کہلوانے والے لوگ بھی اس معاملے پر منہ میں گھنگنیاں ڈالے بیٹھے ہیں۔ کیا اپنی چھاتی کو پیٹنے والے سیکولر حضرات اس وقت بھی چپ سادھے رہیں گے اگر کل کو مودی اپنے وزیر خارجہ کو یہ حکم دیدیں کہ جاپان کے ساتھ سفارتی تعلقات توڑ دیے جائیں کیونکہ جاپان دنیا بھر میں ’’کو بے بیف‘‘ تیار کرنیوالا سب سے بڑا ملک ہے اور  کوبے بیف کو دنیا کی لذیذ ترین ڈشوں میں قرار دیا جاتا ہے۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہندوتوا کے نعرے لگانے والا ہجوم اس بات کا ادراک نہیں رکھتا کہ بھارت پر آئین کی حکمرانی ہے نہ کہ یہاں  ہندو راشٹرا کی حکومت ہے۔ بھارتی آئین ہندوؤں کو جن کی تعداد 80 فی صد ہے 20 فیصد اقلیتوں کے مساوی حقوق دیتا ہے کیونکہ ان دونوں کے ملاپ سے ہی وفاق کی تشکیل مکمل ہوتی ہے۔ مودی اس وقت درست تھے جب انھوں نے نعرہ لگایا تھا کہ ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ جس کا مطلب تھا کہ ساری قوم ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر کامیابی حاصل کرے جو سب کی کامیابی ہو گی، لیکن لگتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انھوں نے اور ان کی پارٹی نے اس نعرے کو فراموش کر دیا ہے اور آج ان کی حکومت ایک ایسے بھارت کی نمایندگی کر رہی ہے جس میں ذرہ بھر برداشت بھی نہیں ہے اور یہی ہندوتوا کا مقصد ہے۔
شاید اس پارٹی کے تھنک ٹینک نے یہ فرض کر لیا ہے کہ معاشرے کو تقسیم در تقسیم کا شکار بنا کر ان کی پارٹی زیادہ ووٹ حاصل کر سکتی ہے۔ اترپردیش میں اسمبلی کے انتخابات آیندہ سال کے اوائل میں ہونگے اور بجرنگ دل نے وہاں پر ماحول بنانے کی کوششیں  شروع کر دی ہیں۔ ان کے لاٹھی بردار جتھے مختلف شہروں میں جلوس نکال کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ دائیں بازو کی انتہا پسند پارٹیاں لوگوں  میں یہ خوف اجاگر کر رہی ہیں کہ انھیں اسلام کے غلبے کے خلاف متحد ہو کر لڑنا ہے۔
جب کہ مغرب میں دائیں بازو کی پارٹیاں بڑی چالاکی سے بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کو اپنی مرضی  سے 
استعمال کر  رہی ہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ جو جمہوری نظام ملک پر نافذ ہے اس میں ہر ایک کو وہ مساوی حقوق  حاصل ہیں۔  کسی پر ناجائز دباؤ نہیں ڈالا جا سکتا۔ بھارت جیسے وسیع و عریض ملک میں جہاں ہر 50 کلو میٹر کے بعد لوگوں کا کھانا پینا اور لباس تبدیل ہو جاتا ہے یہی اس ملک کی رنگا رنگی کا ثبوت ہے اور یہی ہماری اصل طاقت کی علامت ہے۔
بی جے پی کے سخت گیر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ وہ اقتدار میں آ گئے ہیں لہٰذا سب لوگوں کو اپنی قومی اقدار پر ازسرنو غور کرنا چاہیے۔ ان کا یہ دعویٰ کہ انھیں ووٹروں کی بھاری تعداد نے منتخب کیا ہے اس بنا پر قرین قبول نہیں کیونکہ ووٹروں نے کانگریس کی بری طرز حکمرانی کی وجہ سے بی جے پی کو ووٹ دیا ان کے پاس اور کوئی متبادل موجود نہیں تھا۔
اگر کانگریس نے اپنی خاندانی سیاست پر زور دینا جاری رکھا تو وہ ایک بار پھر ناکامی سے دوچار ہو گی۔ راہول گاندھی قطعاً مقبول لیڈر نہیں بن سکے۔ پارٹی کے دیگر تمام لیڈروں کے مقابلے میں تو شاید سونیا گاندھی زیادہ بہتر ثابت ہوں گی۔ ان کے بارے میں اطالوی نژاد اور غیرملکی ہونے کا تاثر کافی عرصے سے ختم ہو چکا ہے اور اب تو وہ ایسی بھارتی خاتون  ثابت ہو رہی ہے جو  پیدائشی طور پر انڈین ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سونیا کا ملک کی حکومت  سنبھالنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا کیونکہ کانگریس پارٹی کی اب پہلی سی چمک دمک باقی نہیں رہی۔ بی جے پی ہندوانہ سیاست کرتی ہے اور یہی ملک کی اجتماعی سوچ محسوس ہوتی ہے تاہم بی جے پی کو اس سوچ کی انتہا کا بھی کچھ نہ کچھ اندازہ ہے یہی وجہ ہے کہ وہ انتہا پسندی سے اغماز برت رہی  ہے۔
اس پارٹی کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس کا پارٹی کیڈر آر ایس ایس کے نظریات کا پیروکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چوٹی کی  بیوروکریسی  سے بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ بھی ہندوتوا کے فلسفے پر عمل پیرا ہوں۔ خود مودی آر ایس ایس کا ’’پرچارک‘‘ رہے ہیں حتیٰ کہ اب بھی وہ باقاعدگی کے ساتھ ناگپور کی زیارت پر جاتے ہیں جہاں آر ایس ایس کی اعلیٰ قیادت سے ان کا  رابطہ ہوتا ہے جس کا اظہار بعض سرکاری پالیسیوں میں بھی ہوتا ہے۔
میں تو صرف یہ امید کر سکتا ہوں کہ یہ صورت حال جلد ہی گزر جائے لیکن جب تک یہ قائم  ہے ملک کی تعمیر و ترقی متاثر ہوتی رہے گی جو کہ بدقسمتی کی بات ہو گی۔ میں امید کرتا ہوں کہ وزیراعظم اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کر کے انھیں آئین کی روشنی میں ازسرنو مرتب کریں گے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)

 کلدیپ نئیر

Tag(s) : #India, #India Politics, #BJP, #Narendra Modi, #Kuldip Nayar
Share this post
Repost0
To be informed of the latest articles, subscribe: