کئی سال پہلے ایک معصوم اور بے ضرر سا کالم لکھنے کے نتیجہ میں بلوچستان کے ایک بےحدسینئر وکیل بلکہ وکیلوں کے دادا استاد اور سابق اٹارنی جنرل نے کیس کر دیا، اللہ ان صاحب کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے کہ ان کی وجوہات شہرت میں ان کی ایک مشہور زمانہ اداکارہ دختر نیک اختر بھی شامل تھی۔ یوں بلوچستان آمد و رفت کا طویل سلسلہ شروع ہو گیا جو ان کی موت تک جاری رہا۔ ہر ڈیڑھ پونے دو ماہ کے بعد مجھے اس ڈرل سے گزرنا پڑتا کہ لاہور سے کراچی پہنچتا، چند گھنٹے کراچی ایئر پورٹ پر ٹرانزٹ میں گزارنے کے بعد کوئٹہ روانہ ہوتا، ادھوری نیند کے بعد اگلی صبح عدالت میں پیش ہوتا، شام کی فلائٹ سے اسلام آباد اور پھر اسی شام ڈھلے اسلام آباد سے لاہور یعنی صبح کا بھولا بدھو دوسرے دن شام گئے گھر پہنچ جاتا۔ ڈیڑھ دو سال جاری رہنے والی اس ایکسرسائز کا اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ بہت سے مقامیوں سے ملاقاتیں رہیں اور اس صوبے کے بارے فرسٹ ہینڈ نالج حاصل کرنے کا موقع مل گیا مثلاً سرداری نظام کیا ہے ؟ اور اس سرداری نظام نے بلوچستان کے عوام کو کیا دیا ہے ؟ مزید یہ کہ مدتوں سے اس صوبہ میں رہنے والے غیربلوچوں کو آج بھی ’’ڈومیسائل‘‘ کہا جاتا ہے ۔
آپ کیلئے یہ خبر خاصی دلچسپی کا باعث ہو گی کہ بلوچستان کہلانے والے اس صوبہ میں بلوچ بھائیوں کی تعداد 40فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ بلوچ قبائل میں بگٹی، مری، مگسی، جمالی، رند، ڈومکی، بنگلزئی ،قیصرانی، رخشانی، نوشیروانی، گچکی، جاموت اور لاسی شامل ہیں اور یہ زیادہ تر ڈیرہ بگٹی ، سبی، کوہلو، جھل مگسی، بولان، جعفر آباد، نصیر آباد، خاران، کیچ، ہزمائی، مستونگ، آواران، لسبیلہ اور کوئٹہ میں پائے جاتے ہیں۔
پشتون بھائی آبادی کا تقریباً 30 فیصد ہیں یعنی کاکڑ، خلجی اور درانی جبکہ ان کے علاقے ہیں پشین، زیارت، لورالائی، ژوب، قلعہ عبداللہ، قلعہ سیف اللہ، موسیٰ خیل، بارکھان اور کوئٹہ،براہوی برادران تقریباً 19 فیصد ہیں۔ مشہور قبائل مینگل، زہری، رئیسانی، محمد حسنی، بزنجو اور علاقے ہیں ان کے خضدار، قلات، چاغی، خاران، بولان ، مستونگ، واشک اور آواران۔
ہزارہ، سندھیوں اور پنجابیوں کو جمع کریں تو یہ کل آبادی کا تقریباً 11 فیصد بنتے ہیں اور زیادہ تر کوئٹہ، نصیر آباد اور جعفر آباد میں پائے جاتے ہیں۔
بلوچستان کے 30 اضلاع ہیں اور یہ صوبہ پاکستان کے کل رقبہ کے 44 فیصد پر مشتمل ہے تو دوسری طرف ملک کی کل آبادی کا صرف 5 فیصد حصہ یہاں مقیم ہے یعنی تقریباً 79 لاکھ نفوس، ساحل سمندر 770 کلومیٹر جبکہ 1160 کلومیٹر بارڈر افغانستان کے ساتھ اور 832 کلومیٹر سرحد ایران کے ساتھ لگتی ہے اور اب کچھ معلومات ’’آزاد بلوچستان‘‘ کے حامی قوم پرست گروپس کے بارے میں جو تھوڑی سی حیران کن بھی ہو سکتی ہیں۔
بلوچ لبریشن آرمی (BLA) کے سربراہ ہربیار مری ہیں۔ قوت 800 تا 900 افراد پر مشتمل اور زیر اثر علاقے ہیں کوئٹہ، کوہلو، سبی، قلات، مستونگ، نوشکی۔ بلوچ لبریشن فرنٹ (BLF) کے سربراہ ہیں ڈاکٹر اللہ نذر، قوت 800 تا 900 افراد اور زیر اثر علاقے ہیں خضدار، آواران، قلات اور مکران۔ بلوچ ری پبلکن آرمی (BRA) کے سربراہ ہیں براہمداغ بگٹی، قوت 700 تا 800 افراد اور زیر اثر علاقے کوئٹہ، ڈیرہ بگٹی، سبی، جعفر آباد، نصیر آباد۔ لشکر بلوچستان (LB) کے سربراہ کا نام ہے جاوید مینگل، قوت 150 تا 200 افراد جبکہ زیر اثر علاقے خضدار، اور قلات۔ یونائیٹڈ بلوچ آرمی (UBA) کے قائد کا نام ہے زمران مری، قوت 150 تا 200 افراد جبکہ زیر اثر علاقے کوئٹہ، سبی، دشت، مستونگ، بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سربراہ ہیں بشیر زیب، قوت کا تخمینہ مجھے میسر نہیں اور یہ تمام بلوچ اکثریتی اضلاع میں پائے جاتے ہیں۔
آخر پر یہ ملین ڈالر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان گروپس کی فنڈنگ کے ذرائع کیا ہیں تو سنی سنائی عرض کئے دیتا ہوں کہ زبان زدعام ذرائع میں انڈیا، افغانستان، برطانیہ، امریکہ اور بعض خلیجی ملک ان میں شامل ہیں۔ اگلا سوال بنتا ہے کہ یہ چاہتے کیا ہیں تو ہر ایک کا اپنا اپنا ایجنڈا ہے اور وہ ہے کیا؟ اس پر انشااللہ پھر کبھی لکھوں گا کہ فی الحال ان حقائق پر غور فرمائیں۔ سطور ہی نہیں بین السطور بھی پڑھنے کی کوشش کریں کہ بنیادی معلومات کے بغیر بلوچستان کی بجھارت کو بوجھنا ناممکن نہیں تو مشکل بہت ہو گا۔
بشکریہ روزنامہ 'جنگ